وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
اور اس طرح ہم نے یوسف کو سرزمین مصر کا اقتدار دے دیا (٥٠) تاکہ اس میں جہاں چاہیں رہیں، ہم اپنی رحمت جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں اور ہم نیک عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ہیں۔
ف 6۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو سلطنتِ مصر میں ہر قسم کے اختیارات حاصل تھا اور وہ ایک کافر بادشاہ کے وزیر اور ملازم نہ تھے۔ ہوسکتا ہے کہ بادشاہ (ریان بن ولید) نے ازخود ہی زمام حکومت ان کے سپرد کردی ہو۔ بعض روایات میں ہے عزیز مصر کی بیوی سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی شادی ہوگئی تھی۔ مگر محدثین (رح) کے نزدیک یہ روایات قابل اعتبار نہیں ہیں۔ (روح)۔ ف 7۔ یعنی دنیا و آخرت دونوں میں انہیں اپنے نیک اعمال کا بدلہ ملتا ہے۔ اس آیت کے سلسلے میں شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، یہ جواب ہوا ان کے سوالوں کا کہ اولادِ ابراہیم ( علیہ السلام) اس طرح شام سے مصر آئی۔ اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے یوسف ( علیہ السلام) کو گھر سودور پھینکا تا ذلیل ہو۔ اللہ نے زیادہ عزت دی اور ملک پر زیادہ اختیار دیا۔ ویسا ہی ہمارے حضرت کے ساتھ ہوا۔ (موضح)۔