قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
بادشاہ نے پوچھا، تم عورتوں کا کیا واقعہ (٤٥) ہے، جب تم نے یوسف کو گناہ پر اکسایا تھا؟ انہوں نے کہا، بے عیب ہے اللہ کی ذات، ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں پائی، عزیز کی بیوی نے کہا، اب حق کھل کر سامنے آگیا میں نے اسے گناہ پر اکسایا تھا اور وہ بالکل سچا ہے۔
ف 7۔ یعنی بادشاہ نے مقدمہ کی تحقیق کے سلسلہ میں عزیز مصر کی بیوی اور دوسری عورتوں سے پوچھا۔ ف 8۔ سب کی طرف فریب کی نسبت اس لئے کہ دوسری عورتیں بھی عزیز مصر کی بیوی کی مددگار تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ بادشاہ نے پوچھ کیا تم نے یوسف ( علیہ السلام) میں کوئی برائی دیکھی پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اسے غیر معین عرصہ کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا؟ ف 9۔ یعنی جب جیل میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو مقدمہ کے سلسلہ میں تحقیقات سے مطلع کیا گیا تو انہوں نے خود فرمایا۔ یہ (سب جھگڑا)…