وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ نجات پاجائے گا اس سے کہا (٣٨) کہ اپنے بادشاہ سے میرے بارے میں بات کرنا، لیکن شیطان نے اس کے دماغ سے یہ بات بھلا دی کہ بادشاہ کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا، اس لیے انہیں کئی سال تک جیل میں رہنا پڑا۔
ف 2۔ کشفِ شدائد میں گو دوسروں سے مدد لینا جائز ہے جیسا کہ آیت وتعاونوا علی البر الخ“ سے بھی معلوم ہوتا ہے مگر یہ عزیمت اور شان پیغمبر کے خلاف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت یوسف ع نے اس بات کی کوشش کی کہ میرا تذکرہ بادشاہ کے پاس کرنا مگر وہ بھول گیا تاکہ پیغمبر کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ (از موضح)۔ ف 3۔ ” بضع“ (چند یا کئی) کا اطلاق عربی زبان میں تین سے نو تک مگر زیادہ ترسات پر ہوتا ہے اس لئے اکثر مفسرین : کا کہنا یہی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سات سال تک جیل میں رہے۔ (معالم) بعض علمائے تفسیر (رح) نے فانساہ میں ” ہ“ کی ضمیر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے مانی ہے اور معنی یہ کئے ہیں کہ ” شیطان نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے رب کی یاد بھلا دی“ اور اس کی تائید میں ایک ایک روایت بھی پیش کی ہے کہ ” اگر یوسف ( علیہ السلام) اللہ کو چھوڑ کر دوسروں پر رہائی کی امید نہ رکھتے تو تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ ٹھہرے‘ مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے لہٰذا یہ معنی صحیح نہیں ہیں۔ (ابن کثیر)۔