وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا (٢١) اس نے اپنی بیوی سے کہا، اسے باعزت رہائش دو، امید ہے کہ یہ ہمارے لیے نفع بخش ثابت ہوگا، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں گے، اور اس طرح ہم نے یوسف کے لیے سر زمین مصر میں رہائش مہیا کردی، اور تاکہ ہم انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم دیں اور اللہ اپنے فیصلے پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے ہیں۔
ف 8۔ قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ” عزیز“ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا وزیراعظم تھا۔ بائیبل میں ہے کہ وہ بادشاہ کے باڈی گارڈوں کا افسر اور جیل خانوں کا منتظم تھا۔ اس کی بیوی کے نام ” زلیخا“ کا بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا البتہ بعض مفسرین نے یہ نام لکھا ہے اور وہ بھی غالباً اسرائیلی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے۔ کیونکہ یہود کے تلمود میں اس کا اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین (رح) نے اس کا نام ” راعیل“ بھی لکھا ہے۔ کما ھو مروی عن مجاھد۔ ف 9۔ یعنی جیسے اسے پہلے بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح…(شوکانی)۔ ف 10۔ مصر میں عزیز مصر (بادشاہ کے وزیر) نے اسے خرید لیا۔ اس طرح مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قدم مضبوط ہوگئے اور ان کو امتیاز و مرتبہ حاصل ہوگیا پھر ان کی وجہ سے بنی اسرائیل وہاں آباد ہوگئے اور یہ بھی منظور تھا کہ سرداروں کی صحبت دیکھیں تارمزو اشارہ سمجھنے کا سلیقہ کمال پکڑیں اور علم خدائی پورا پاویں۔ (از موضح)۔ ف 11۔ شاہ صاحب کا ترجمہ ہے ” اور اللہ جیت رہتا ہے“۔ یعنی بھائیوں نے چاہا کہ ان کو گرادیں اسی میں یہ چڑھ گئے۔ (موضح)۔ ف 12۔ کہ ہر قسم کا ختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس واقعہ میں تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مصر میں یوسف ( علیہ السلام) کو غلبہ حاصل ہو مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں سے آگاہ نہیں۔