وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ (230) نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم (اس زندگی کا) شعور نہیں کرپاتے ہو
ف 5 اوپر کی آیت میں اقامت دین کے لیے صبر وصلوہ سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے اب یہاں جہاد کی ترغیب ہے۔ ( کبیر) جب غزوہ بدر میں کچھ صحابہ (چودہ) شہید ہوگئے تو بعض لوگ کہنے لگے فلاں مرگیا۔ اس سے زندگی کا عیش وآرام چھین گیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہدا کے متعلق کفا رنے اس قسم کی باتیں کیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان کبیر) شہیدوں کو بر زخی حیات حاصل ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ ان کی روحیں جنت میں عیش وآرام سے بسر کر رہے ہیں (دیکھئے آل عمران حاشیہ آیت 169۔170) اور قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد برزخ ( قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ دیکھئے سورت غافر حاشیہ آیت 11۔46) سورت نوح آیت 25، ابراہیم 27) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہورہا ہے مروی ہے القبر روضتہ من ریاض الجنتہ او حفرہ من جفر الناد (مشکوہ) حا فظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر مومن کی روح جنت میں چلی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نسئمتہ امومن طاتر تعلق فی شجر الجنتہ حتی یر جعہ الی حسد یوم یبعثہ (مسند احمد) کہ ہر مومن کی روح پرند کی شکل میں جنت میں درختوں میں جھولتی ہے اور بزخی زند گی انبیاء علیہم السلام کو علی الو جہ ال اکمل حاصل ہے مگر شہدا کی تعظیم وتکریم کے لیے قرآن نے خصو صیت سے ان کو احیا کہا ہے۔ (ابن کثیر )