فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
پس آپ کو جیسا کہ حکم دیا گیا ہے، راہ حق پر قائم رہئے (٩١) اور وہ لوگ بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیا ہے، اور تم لوگ اللہ سے سرکشی نہ کرو، وہ بیشک تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔
ف 7۔ یعنی اللہ کے حکم اور شریعت پر قائم رہیں۔ ” استقامت“ ایک نہایت ہی جامع لفظ ہے جو شریعت کے پورے نظام کی پابندی سے عبارت ہے۔ ایک صحابی (رض) نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتلا دیئے جس کے بعد مجھے آپﷺ کے علاوہ کسی دوسرے سے دریافت کی ضرورت نہ رہے۔“ فرمایا : قل امنت باللہ ثم استقم کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیا کرو۔ (فتح البیان) یہ آیات شامل ہے عقائد و اعمال اور اخلاق کو عقائد میں استقامت یہ ہے کہ تشبیہ و تعطیل اور اہل ذریغ کی تاویل سے اجتناب کیا جائے اور اعمال میں زیادت و نقصان، بدعات اور تقلید رجال و آراء سے احتراز لازم ہے۔ اخلاق میں افراط ق تفریط سے دور رہنا ضروری ہے اور یہ پابندی نہایت کٹھن ہے۔ اسی صعوبت کی طرف آنحضرت ﷺ نے اشارہ کرتے کرتے فرمایا ہے۔ ” تشیبتنی ھود“ کہ سورۃ ہود کی اس آیت نے تو مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ (کذافی الشوکانی)۔ ف 8۔ یعنی شریعت کی اطاعت کے لئے اللہ اور اس کے رسول ( علیہ السلام) نے جو حدیں مقرر کردی ہیں اپنے آپو کو انہی کے اندر رکھو۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرو۔ سارے معاملاتِ زندگی میں ان حدوں سے تجاوز کرنا حرام ہے۔ حدیث میں ہے میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، رات کو قیام کرتا ہوں اور نہیں بھی کرتا، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ لہٰذا جو شخص میری سنت سے بے رغبت کا اظہار کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (ابن کثیر)۔