وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف (٨٩) پیدا کیا گیا (کوئی ایمان لایا اور کوئی نہیں لایا) اور اگر آپ کے رب کی جانب سے ایک بات پہلے ہی طے نہ ہوچکی ہوتی تو اسی دنیا میں ان کا فیصلہ کردیا جاتا، اور بیشک یہ کفار اس قرآن کی طرف سے ایک خطرناک شبہ میں مبتلا ہیں۔
ف 3۔ یعنی ان کی بت پرستی کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ اہل سعادت و شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آکر میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپو پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپﷺ بدل اور کبیدہ خاطر نہ ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے توراۃ کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کرچکے ہیں۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ یا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے رحمت میرے غصے پر غالب ہے تو اب تک ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں“ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔ (از موضح)۔ ف 6۔ یعنی سخت خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔