سورة البقرة - آیت 150

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور آپ جہاں کہیں بھی نکل کر جائیے (226) وہاں سے (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کیجئے، اور (اے مسلمانو !) تم جہاں کہیں بھی رہو (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو، تاکہ لوگوں کے پاس تمہارے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ظلم کیا، پس تم لوگ ان سے نہ ڈرو، اور صرف مجھ سے ڈرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر تمام کردوں، اور تاکہ تم راہ راست پر لگ جاؤ

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 : مسجد حرام کی طرف متوجہ ہونے کے حکم کا تین بار اعادہ کیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ چونکہ اسلام میں پهلا نسخ ہے اس لیے تکرار برائے تاکید ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ حکم اس شخص کو ہے جو قبلہ کے سامنے ہو اور دوسری مرتبہ اسے جو مكہ میں هو مگر كعبہ اسے نظر نہ آتا ہو اورتیسری مرتبہ دوسرے ممالك كے لیے خواه وه كتنی ہی دور كیوں نہ ہوں۔ اس تكرار سے تحویل قبلہ كے اسباب وجوه كی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے پہلی مرتبہ آپ(ﷺ) کی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ ہو اور دوسری مرتبہ بیان سے اس کی حقانیت پر زور دینا مقصود ہو ااور تیسری مرتبہ نسخ قبلہ پر معتر ضین کے اعتراض کو ختم کرنا ہوجیساکہİلِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيۡكُمۡ حُجَّةٌ Ĭسے معلوم ہوتا ہے یعنی اہل کتاب کے لیے اس اعتراض کی گنجائش بھی نہ رہے کی نبی آخرالز مان کا قبلہ تو کعبہ ہوگا اور یہ بیت المقدس کی طرف ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 1: حتی کہ استقبال کعبہ کا حکم بھی اتمام نعمت کے طور پر ہے (المنار)