سورة البقرة - آیت 148

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہر صاحب مذہب کا ایک قبلہ (222) ہوتا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیک کاموں کی طرف سبقت (223) کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے، اللہ تمہیں اکٹھا (224) کرے گا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر (225) ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی ددر میں تعین قبلہ کے حکم کو اصول دین کو حیثیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس میں رد وبد نہ ہو سکے دوسرے احکام کی طرح اس میں نسخ ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ صخرہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی شرقی جانب کی طرف رخ کرت ہیں طرح ان پہلی امتوں کے لیے بھی ایک سمت مقرر تھی اس اصل تحت تمہارے لیے کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا تمہیں چاہیے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو۔ (ابن کثیر۔ المنار) اس میں اشارہ ہے کہ نماز بھی اول وقت ادا کرنے چاہیے حدیث میں ہے خیر الاعمال الصلوہ الاول قعتھا۔ کہ سب سے بہتر عمل اول وقت پر نماز ادا کرنے ہے۔ (بخاری مسلم) فائدہ۔ حاظ ابن تیمہ نے الردعلی المنطقیین (س 29) اور حافظ ابن القیم نے بدائع الفوا ئد (ج 2 ص 168۔173) میں محققا نہ طور پر ثاتب کیا ہے کہ بیت المقدس کو قبیلہ بنانا اجتہادی امرتھا اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو حکم نہیں دیا کہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھیں،(کتاب الایمان ص 11) ج 8 یعنی آخر تم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہونا ہے اور نیک کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا۔ (قرطبی)