قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ
نوح نے کہا، میرے رب ! میں تیرے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں (٣٥) کہ تجھ سے کوئی ایسا سوال کروں جس کا مجھے کوئی علم نہیں، اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔
ف 2۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) شاید پدری محبت کے تقاضے سے یہ سمجھ بیٹھے کہ بیٹا، چاہے وہ کافر ہو گھروالوں میں شامل ہے اور اس کے لئے دعا کی جاسکتی ہے لیکن جونہی اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ ایک کافر بیٹے کو نسبی قرابت کی بنا پر اپنا اہل سمجھنا صحیح نہیں ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوئے اور اللہ کے حضور اپنی غلطی پر معافی چاہی۔ (از وحیدی)۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت نوح ( علیہ السلام) نے توبہ کی لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندے کو کیا مقدور ہے؟ اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو۔ (موضح)۔