وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور میں تم سے نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے (٢٢) ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ جنہیں تمہاری نظریں حقیر جانتی ہیں، انہیں اللہ کوئی خیر عطا نہیں کرے گا، ان کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں گا تو یقینا ظالموں میں سے ہوجاؤں گا۔
ف 12۔ یہ اس بات کا جواب ہے جو ان لوگوں نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم اپنے جیسے ایک انسان نظرآتے ہو اور یہ کہ ہم تم کو کسی بات میں اپنے سے زیادہ نہیں پاتے۔ اس پر حضرت نوح فرماتے ہیں کہ وہاں میں واقعی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں نہ میرے پاس اللہ کے خزانے میں نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ یعنی اس قسم کی کوئی فوقیت مجھ میں نہیں ہے۔ میرا جو بھی دعویٰ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس نے اپنے سیدھے راستے کی مھے ہدایت بخشی ہے میرا یہ دعویٰ ناقابلِ تردید ہے۔ اس کی تم جس طرح چاہو آزمائش کرلو۔ (از وحیدی)۔ ف 13۔ یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ محض تمہیں خوش کرنے کے لئے ان لوگوں کے بارے میں اس قسم کی جاہلانہ بات کہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اوصاف کا وجود اولازم نبوت میں سے نہیں ہے کہ ان کے بغیر نبوت مل ہی نہیں سکتی اور نہ ان اوصاف کا عدم ہی خیر سے مانع ہے کہ جو شخص مالدار نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیر بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ قادرِ کریم ہے کہ ناتوانوں کو عزت دیتا ہے اور عزت والوں کو دم بھر میں ذلیل کردیت اہے۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے رب پر ایمان اور اس کے رسول کی پیروی کی بدولت تم سے زیادہ باعزت اور شریف ہیں۔ (از روح۔ وحیدی)۔ ف 14۔ اگر ان کے دلوں میں ایمان و اخلاص ہے تو اللہ کے ہاں ضرور اجر پائیں گے۔ تم اور میں مل کر بھی انہیں اس اجر سے محروم نہیں کرسکتے۔ (از وحیدی)۔ ف 15۔ یعنی اگر میں انہیں خواہ مخواہ ذلیل قراردوں۔ اشارہ ہے کہ تم ان کو رذالے کہنے میں ظالم ہو یا یہ کہ اگر میں خزائن الٰہی کو جمع کرنے، غیب کے جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرون تو۔۔۔۔