أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
کیا جس شخص کو اس کے رب کی جانب سے قرآن جیسی کھلی نشانی ملی ہو، اور اس کے بعد اس کی جانب سے ایک گواہ بھی آیا ہو (یعنی جبریل) اور اس کے قبل موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت بن کر آچکی ہو (کیا ایسا آدمی گمراہ ہوسکتا ہے؟) ایسے ہی لوگ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، اور قوموں اور جماعتوں میں سے جو بھی اس قرآن کا انکار کرے گا اس سے جہنم کا وعدہ ہے، تو آپ قرآن کے بارے میں کسی شک (١٥) میں نہ پڑیں، وہ یقینا آپ کے رب کی برحق کتاب ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں۔
ف 8۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی دل میں اس کا نور اور مزہ پاتا ہے اور قرآن کی حلاوت۔ (موضع) ف 9۔ وہ شخص اس کی طرح ہوگا جس کے پیش نظر دنیا اور اس کی خوشحال اور فارغ البالی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں کی حالت یکساں نہیں ہوسکتی۔ (ازوحیدی)۔ ف 10۔ جو لوگ عقل سلیم سے کا لیتے ہیں اور خدا کا گواہ بھی ان کو پہنچ چکا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ توراۃ میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں کیا بشارتیں اور علامات بیان کی گئی ہیں۔ (وحیدی)۔ ف 11۔ یہ وعید تمام گروہوں (اہلِ ایمان) کے لئے ہے جو بھی قرآن سے روگردانی اور اس کے احکام سے انکار کرے گا خواہ نام کے اعتبار سے مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ (ت۔ ن)۔ ف 21۔ بظاہر خطاب آنحضرتﷺ سے ہے اور مراد دوسرے لوگ ہیں۔ (قرطبی)۔