قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ نے کہا کہ تم دونوں کی دعائیں (٥٨) قبول کرلی گئیں، پس تم دونوں راہ حق پر قائم رہو اور نادانوں کی راہ کی اتباع نہ کرو۔
ف 3۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) آمین کہہ رہے تھے۔ اس لئے دونوں کی طرف اضافت کردی۔ (شوکانی)۔ ف 4۔ یعنی دعوت کا کام کرتے رہو۔ آخر کار تمہاری دعا کا اثر ظاہر ہو کر رہے گا۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں یا دعا کرتے ہی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہوجائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہتری دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہ کی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کی دعات اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا اور جلدی کرنا یہ ہے کہ وہ گبھرا کر کہتا ہے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے قبول نہ کی۔ (بخاری مسلم)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی شتابی نہ کرو حک کی راہ دیکھو۔ “