سورة البقرة - آیت 138

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

(اے یہود و نصاری) اللہ کا رنگ (٢٠١) اختیار کرلو، اور اللہ کے رنگ سے اچھا کون سا رنگ ہوسکتا ہے، اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رنگ سے مراد اسلام یا وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ (وحیدی) اور اس کو صبغتہ اللہ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نصاری نے عیسایت کے لیے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا تھا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہوتا تو اس کو اس پانی سے غسل دیتے اور کہتے کہ اب پاک اور صحیح معنوں میں نصرانی ہو اہے۔ اس رسم کا نام ان کے ہاں معمودیہ یعنی بتبسمہ دینا ہ۔ (قرطبی) چنانچہ اس آیت میں ان کی تردید فرمائی کہ سب سے بہتر رنگ اللہ کا رنگ ہے یعنی دین اسلام ہے جسے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کرتمام انبیاء لیکر مبعوث ہوئے ہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ اس کی پابندی کرویہاں صبغتہ اللہ منصوب علی الا غراء ہے (ابن کثیر۔ شوکانی)