سورة البقرة - آیت 137

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اگر یہ (یہود و نصاری) تمہاری طرح ایمان (٢٠٠) لے آئے، تو راہ راست پر آگئے، اور اگر انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا، تو (اس لیے کہ وہ) مخالفت و عداوت پر آگئے، پس اللہ آپ کے لیے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا، اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جانے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 اس آیت میں مسلمانوں کی ہدایت اور ایمان کی تعلیم فرمائی ہے یعنی قرآن پاک سے پہلے جتنی آسمانی کتابیں ہیں اور جنتے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب پر مجملا ایمان لانا اور عمل کرنا ضرور ہے اس سلسلہ میں بعض انبیاء کے اسماء صراحت سے اور بقیہ کی طرف اجمالی اشارہ فرمادیا ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو رات انجیل اور زبور کے سچا ہونے کا اقرا کرو مگر عمل صرف قرآن پر کرو کیونکہ قرآن کے نزول سے پہلی تما کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں حضرت ابوہریرہ سے ایک اور روایت میں ہے کہ اہل کتاب عبرانی زبان تورات پڑھتے اور مسلمانوں کے سامنے عربی میں۔ اس کی تفیسری کر کے سناتے۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ ان سے یہ کہو امنا بالللہ۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) بعینیہ یہی بات اہل سنت کا گروہ اہل بدعت اور اصحاب تقلید سے کہتا چلا آرہا ہے کہ تم سب علماء اور اولیاء اسلام اور ائمہ دین کو مانو مگر قرآن وسنت کے سوا کسی کے قول کو سند نہ سمجھو عمل صرف قرآن پر کرو۔ (ت، ن) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموما فجر کی سنت کی پہلی رکعت میں یہ آیت اور دوسری رکعت میں آل عمران کی وہ آیت جس میں فقولوا شھدوا بانا مسلمون آتا ہے ہے پڑھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم۔ ابوداؤد) ف 1 چنانچہ یہ وعد سچا ہو۔ بنو قریظہ قتل ہوئے اور بن نضیر جلاوطن کردیئے گئے۔ (وحیدی)