أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
آگاہ رہو، کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، بیشک ان کا مالک (٤٩) اللہ ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا شرکاء کو پکارتے ہیں وہ تو صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور محض بے بنیاد باتیں کرتے ہیں۔
ف 12۔ تو یہ کفار ومشرکین بھی جو آپﷺ کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کی ملکیت ہوئے وہی ان کے معاملے میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کو ان کی ایذارسانی اور طعن و تشنیع سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپﷺ کی کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچا سکتے جس کی اللہ نے اجازت نہ دی ہو۔ اس آیت میں ان لوگوں کی بھی سخت تردید ہے جو مالک کو چھوڑ کر اس کی مملوکات۔ ملائکہ، انسان، جمادات و نباتات، بتوں، قبروں، اور بزرگوں۔ کی پرستش کرتے ہیں۔ اسی لئے کے بعد شرک کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر)۔ ف 1۔ یعنی حقیقت میں تو کوئی بھی اللہ کا شریک نہیں ہے انہوں نے اپنے خیال و وہم میں ان کو شریک سمجھ کر ان کی پیروی اختیار کر رکھی ہے۔ (کبیر) پس نفی حقیقت اور نفس الامر کے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ما“ استفہامیہ برائے انکار ہو۔ (روح المعانی)۔ ف 2۔ علق سے کام نہیں لیتے اور نہ دلیل کو دیکھتے ہیں۔ اگر عقل سے کام لیتے اور دلیل پر غور کرتے تو انہیں صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور اکیلا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔