وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہر وہ شخص جس نے دنیا میں شرک کیا ہوگا، اگر وہ زمین کی ہر چیز کا مالک ہوگا تو اسے دے کر اپنی جان چھڑانا (٤٢) چاہے گا، اور جب وہ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو اپنی ندامت کو چھپائیں گے، اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
ف 3۔ یعنی جس عذاب کا وہ ساری عمر مذاق اڑاتے ہے۔ جب وہ ان کی توقع کے بالکل خلاف یکایک سامنے آجائے گا تو ان کی عجیب کیفیت ہوگی۔ ایک طرف وہ سخت شرمندہ ہوں گے اور ان کے ضمیر انہیں کوس رہے ہوں گے لیکن دوسری طرف وہ اپنی شرمندگی کو اپنے ساتھیوں اور ماننے والوں سے چھپانا بھی چاہیں گے کہ کہیں وہ ملامت نہ کریں۔ اس لے دل ہی دل میں شرمندہ ہوں گے اور بظاہر مطمئن بننے کی کوشش کریں گے۔ بعض نے ” اسروا“ کے معنی اظہار بھی کئے ہیں۔ (از کبیر۔ شوکانی)۔ ف 4۔ اس لئے کہ یہ عذاب ان کے کرتوتوں کا ثمرہ ہوگا۔