وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
اور یہی وصیت ابراہیم (١٩٤) نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) کی، کہ اے میرے بیٹو، اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو اختیار کرلیا ہے، اس لیے جب مرو تو اسلام کی حالت میں مرو
ف 1 یہاں الدین" سے ملت اسلام مراد ہے جیسا کہ آیت کے خاتمہ میں صراحت ہے اس آیت میں دین اسلام یا توحید پر سختی سے کار بند رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خاتمہ بھی اسی پر ہو۔ (فتح القدیر) اس حالت پر موت گر انسان کے اختیار کی چیز نہیں ہے کہ کو نکہ نیک خاتمہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے عموم ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنے دل لگاؤ کے ساتھ راستہ بھی اختیار کرلیتا ہے موت بھی اسی حالت پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ کریم کی سنت یہی ہے کہ انسان نیک یا بد جو راستہ بھی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کی توفیق دیدی جاتی ہے۔ ( دیکھئے آیت اللیل 5؛10) ( ابن کثیر تبصرف) ان آیات میں بھی یہود ونصاری اور مشر کین مکہ کی تردید جو اپنے آپ و حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ان کا دین بھی یہی یہودیت اور نصراینت تھا۔ قرآن نے بتایا ہے کہ تم ان بزرگوں پر بہتان باندھ رہے ہو ان کا دین بھی یہی اسلام تھا جس میں توحید اور اخلا ص کی تعلیم دی گئی ہے۔