وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب انسان کو تکلیف (١٢) پہنچتی ہے تو اپنے پہلو کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا اس نے اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جو اسے پہنچی تھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔
ف ٦۔ اس آیت میں انسان کے انتہائی عجز اور ضعف کی طرف اشارہ ہے جس سے اوپر کی آیت کے مضمون کی تاکید مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے تو انسان فوراً ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر)۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اس قدر عاجز اور ناتواں ہے کہ جونہی کوئی تکلیف پہنچتی ہے لیٹے بیٹھے ہر حال میں اللہ کو پکارتا ہے لیکن اس کے بے وفائی کا یہ عالم ہے کہ جونہی تکلیف دور ہوتی ہے اسی غرور میں بدمست ہوجاتا ہے اور اپنی مصیبت سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ سکھ اور چین کی گھڑی میں اللہ کو یاد کرو وہ سختی اور تکلیف کی گھڑی میں تمہیں یاد رکھے گا۔ (فتح القدیر)۔ ف ٧۔ یعنی شیطان نے ان کے برے کاموں کو ان کی نظر میں بھلا کر دکھایا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اپنی اس روش سے باز آجائیں۔