وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
اور ان تینوں پر بھی (توجہ فرمائی) جو پیچھے رہ گئے گئے، یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی، اور خود ان کی جانیں ان پر تنگ ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ سے بھاگ کر اس کی جناب کے علاوہ دنیا میں اور کوئی جائے پناہ نہیں ہے، تو اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
ف ٦۔ یہ بی لقد تاب اللہ کے تحت ہے اور ان سے مراد ہیں حضرت کعب بن مالک مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ۔ دیکھئے آیت ٦٠١۔ (ابن کثیر)۔ ف ٧۔ کوئی ان سے بات تک نہ کرتا اور نہ اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت دیتا یہاں تک کہ ان کی بیویوں کو بھی بات چیت کی اجازت نہ تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے مکمل بائیکاٹ کا حکم دے دیا تھا۔ حضرت کعب (رض) نے ایک لمبی حدیث میں اس بائیکاٹ اور پھر توبہ قبول ہونے کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف ٨۔ معلوم ہوا کہ توبہ کا قبول کرنا محض اللہ کا فضل و کرم ہے ورنہ اس پر کسی کا زور نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ساتھ مہاجرین (رض) و انصار (رض) کے (توبہ کے قبول ہونے میں) وہ تین شخص بھی داخل ہوئے پچاس دن میں ان پر سخت حالت گزری کہ موت سے بدتر۔ (موضح)۔