وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور منافقین بھی ہیں جنہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے اور کفر کی باتیں کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لیے ایک مسجد (٨٥) بنائی، اور تاکہ وہ ان لوگوں کے لیے کمین گاہ بنے جو پہلے سے ہی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے رہے ہیں، اور وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم نے تو صرف بھلائی کی نیت کی تھی، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔
ف 4۔ یہ اور اس کے بعد کی چند آیات کی شان نزول یہ ہے کہ آنحضرت کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے قبل قبیلہ خزرج میں ایک شخص حنظلہ غسیل ملائکہ کا والد ابوعامر راہب نامی تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے راہب کی بجائے فاسق فرماتے۔ اس نے جاہلیت میں عیسائی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ لوگ اس کی درویشی کے معتقد تھے اور اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں نے ایک جمعیت کی شکل اختیار کرلی اور اس متحدہ طاقت نے جند بدر میں بھی کفار کو شکست فاش دی تو یہ دیکھ کر ابو عامر چراغ پا ہوگیا اور اسلام دشمنی پر کمر باندھ لی۔ اس کے بعد مکہ پہنچا اور قریش کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ پر ابھارتا رہا حتی کہ معرکہ احد پیش آیا۔ اس جنگ میں اس بدبخت نے دو گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک گر کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زخمی ہوئے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے حق میں بد دعا بھی کی تھی کہ وہ اپنے وطن سے دور تنہا اور بیکسی کی موت مرے۔ چنانچہ بالآخر جنگ حنین کے بعد جب اس نے دیکھا کہ اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں۔ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہوگیا ہے تو وہ بھاگ کر عیسائیوں کے بادشاہ ہر قل کے پاس پہنچ گیا تاکہ اس سے مسلمانوں کے خلاف مدد حاصل ہوجائے۔ ہر قل نے اس سے مدد کا وعدہ بھی کرلیا اس لیے اس نے مدینہ کے منافقین کو لکھا کہ میں عنقریب ایک لشکر جرار لے کر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے آرہا ہوں۔ تم فی الحال ایک الگ اڈہ قائم کرو جہاں اسلام کے خلاف سازشیں کی جا سکیں اور میرے ساتھ رابطہ قائم رکھ سکو۔ چنانچہ منافقین نے مسجد قبا کے قریب مسجد کے نام سے ایک اڈہ بنانا شروع کردیا اور اس کی تکمیل کے بعد مسلمانوں کے قلوب سے شک و شبہ دور کرنے کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دی کہ یہاں تبرک کے طور پر ایک نماز پڑھا جائیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تبوک روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے اس لیے آپ ن نے فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر میں تمہاری مسجد میں آخر نماز پڑھوں گا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس ہو کر مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو حضرت جبرائیل یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں اس مسجد ضرار کا پول کھولا گیا ہے۔ آپ نے مالک بن دخشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ اس جگہ کو جس کا نام ازراہ فریب مسجد رکھا گیا جا کر فوراً پیوند خاک کردیں۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس جگہ کو فوراً جلا کر ختم کردیا۔ اس جگہ من حارب اللہ ورسولہ سے یہی بد بخت ابو عامر مراد ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)