وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور مہاجرین اور انصار میں سے وہ اولین لوگ (٧٧) جنہوں نے ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت کی، اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا، اور وہ سب اللہ سے راضی (٧٨) ہوگئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔
ف 1 بعض اعراب (گنواروں) کا اخلاص اور ان کو رحمت کی خوش خبری سنانے کے بعد ان سے اعلی مراتب کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا یعنی مہاجرین اور انصار جنہوں نے ہجرت و نصرت دین میں پہل کی۔ ان کی تعیین میں مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اول سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی اور بعض نے بیعتِ رضوان (صلح حدیبیہ) میں شامل ہونے والے اور بعض نے بدری صحابہ مراد لیے ہیں۔ اور انصار سے مراد وہ لوگ ہیں جو بیعت عقبہ (اولی و ثانیہ) میں شریک ہوئے اور پھر وہ لوگ جو مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر کی آمد پر مسلمان ہوگئے تھے۔ مگر ہجرت و نصر کے اعتبار سے درجہ بدرجہ سبھی صحابہ مراد لیے جاسکتے ہیں۔ پھر صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر کا درجہ ہے جو اسلام میں بھی اول ہیں اور ہجرت میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ہیں۔ پھر بالترتیب دوسرے خلفا کے درجے ہیں۔ ان کے بعد باقی عشرہ مبشرہ جن میں طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، عبدالرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ بن جراح (رض) شامل ہیں۔ پھر بدری عقبی صحابہ کا درجہ ہے اور ان کے بعد وہ جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ صحابہ کی فضیلت کی اس ترتیب میں اہل السنت و الجماعۃ تقریبا متفق ہیں گو بعض علما حضرت علی کی افضیلت کے بھی قائل ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ حضرت نے حضرت ابوبکر کے بعد ہجرت کی تھی۔ (از کبیر و ابن کثیر) ف 2۔ ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جو بعد میں ایمان لائے اور ہجرت بھی کی جیسا کہ سورۃ انفال آیت 75 میں مہاجرین اور انصار کا تزکرہ کرنے کے بعد فرمایا : والذین امنوا من بعد وھاجروا کہ جو ان کے بعد ایمان لائے اور پھر ہجرت بھی کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ "اتبعوھم باحسان" سے قیامت تک کے وہ تمام مسلمان مراد ہوں جو صحابہ کرام کے نقش قدم پر ہیں اور ان کے قول و عمل میں احسان پایا جاتا ہے۔ بہرحال ان سے اصطلاحی تابعین ہی مراد نہیں ہیں۔ (کبیر۔ شوکانی) ف 3۔ چونکہ رضائے الٰہی کے حصول اور جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری جس علت پر مترتب ہورہی ہے وہ دائمی ہے یعنی ہجرت و نصرت میں پہل، اس لیے یہ بشارت بھی دائمی ہے۔ لہذا ان صحابہ میں سے العیاذ باللہ کسی ایک کے متعلق ارتداد کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ پھر کتنے بدبخت اور لعنتی ہیں وہ لوگ جو ان حضرت کے خلاف عموما اور ان افضل ترین ہستیوں (حضرت ابوبکر و حضرت عمر) کے خلاف خصوصا زبان درازی، سب و شتم اور تبرا بازی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ از وحیدی