سورة التوبہ - آیت 84

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ان میں سے جو کوئی مر گیا اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیے (64) اور اس کی قبر کے پاس نہ کھڑے ہوئیے، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کردیا اور ان کی موت حالت کفر میں ہوگئی۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جنگ تبوک کے کچھ عرصہ بعد منا فق کے سردار عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا، اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبداللہ جو مخلص مسلمان تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کے کفن میں شامل کرنے کے لیے کرتہ مانگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کرتہ دے دیا۔ پھر آئے اور نما زہ جنازہ پڑھا نے کی درخواست کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھا نے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتا پکڑ لیا اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ اس شخص کی نماجنازہ پڑھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے آپ کو منافقین کے لیے دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا ؛ مجھے اختیار دیا گیا ہے یکہ چاہے ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگوں انکی بخشش نہیں ہوگی۔ اگر مجھے معلوم ہو کہ ستر مرتبہ سے زیادہ بخشش مانگنے سے اس کی بخشش ہوجائے گی تو میں زیادہ مرتبہ بھ بخشش کے لیے تیار ہوں۔ آخرت آپ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( بخاری مسلم) چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوتے تھے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی جنازہ کی اطلاع دی جاتی تو آپ اس کے بارے میں دریافت فرماتے۔ اگر لوگ اس کی تعریف کرتے ( یعنی اس کے سچے مسلمان ہونے کی گواہی دیتے) تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے ورنہ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے کہ اسے جیسے چاہو دفن کر دو ( میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھا ؤنگا) چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاتے اور اپنی خلافت میں حضرت عمر (رض) کا معمول یہ تھا کہ جس شخص کا حال معلوم نہ ہوتا آپ اس کی نماز جنازہ اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک کہ حضرت حذیفہ (رض) بن یمان اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے۔ اس لیے کہ انہیں معلوم تھا کہ مدینہ میں کون کون سے لوگ منافق ہیں ( ابن کثیر) اس آیت اور ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کھلے ہوئے فاسق وبد کار قسم کے لوگوں کی نما زہ جنازہ اہل علم اور مقتدیٰ قسم کے لوگوں کو نہیں پڑھنی چاہیے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ اور یہی احمد بن حنبل (رح) اور اکثر علمائے اہل حدیث کا مسلک ہے۔ ( کتاب الجنائز مبار کپوری 69۔70)