قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ
آپ کہئے کہ تم چاہے خوشی سے خرچ کرو یا نا خوشی (41) سے، تمہاری جانب سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ تم لوگ فاسق ہو
ف 2 اوپر کی آیت میں تبایا گیا ہے منافقین کے لے بہر حال عذاب ہے۔ اب اس آیت میں فرمایا کہ اس عذاب سے کسی طور رہ نجات نہیں پا سکتے کیونکہ آخرت میں ان کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں ہے۔ ( کبیر) غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہمیں ساتھ جانے تو معافی دیدی جائے لیکن اس کے عوض ہم مالی اعانت کرنے کا تیار ہیں۔ وہ یہ بات اس لیے کہ کہتے تھے کہ کہیں مسلمانوں میں بالکل ہی بد نام ہو کر رہ جائیں۔ انہی کو دلوں میں نفاق اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی بھری ہو ان کی مالی امداد کسی طور پر نہیں کی جاسکتی خوشی سے دیں یا مجبورا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : جدبن قیس نے مال خرچ کرنے کی بات جو کہا تھا اس کایہ جواب ہے کہ بے اعتقاد کا مال قبول نہیں۔ کذافی الر ازی عن ابن عباس۔ از مو ضح )