يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو (32) تو بھاری ہو کر زمین سے لگے جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ہو، آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی کا فائدہ بہت ہی تھوڑا ہے
ف 4 یعنی نکلنے سے ہچکچاتے ہو اور گھروں میں بیٹھے رہنا پسند کرتے ہو، کفار کے قبائح بیان فرمایا کہ جب ان کے خلاف جہاد ضروری ہونے کے اتنے اسباب موجود ہیں اور اس میں فوائد بھی ہیں تو پھر محض دنیا کے حقیر مفاد کی خاطر جہاد نہ کرنا انتہائی کمزوری ہے ( کبیر) علمانے تفسیر (رح) اس پر متفق ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں پر عتاب ہے جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں پس وپیش کی تھی۔ وا ضح رہے کہ غزوہ تبوک کا واقعہ فتح مکہ کے بعد 9 ھ میں طائف سے واپسی پر پیش آیا۔ ان دنوں سخت گرمی کا موسم تھا اور کھجوریں پک رہی تھیں اس لیے بعض نام کے مسلمان جہاد پر روانہ ہونے سے جی چرانے لگے اس غزوہ کا پس منظر یہ تھا کہ جب اسلامی سلظنت کا دائرہ سارے ملک عرب میں پھیل گیا تو ملک شام پر قبیلہ غسان حکمران تھا جو شاہ روم کے تابع تھ وہ اس کی فکر میں لگا کہ شاہ روم کو بلا کر عرب پر چڑھائی کی جائے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارادہ فرمایا کہ ملک شام کی سرحد پر پہنچ کر رومی فوجوں کر عرب پر حملہ آور ہونے سے رکا جائے، اس سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاہ روم کے خط بھی لکھا جس میں اسے دین اسلام کی دعوت دی اور وہ اسلام لانے پر آمادہ بھی ہوگیا لیکن اس کی قوم نے اس کا ساتھ نہ دیا اس لے وہ اسلام سے محروم رہا۔ جب شام والوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادہ کی خبر پائی تو شاہ روم کو اطلاع دی لیکن اس نے مدد کرنے کی ذمہ دار قبول نہ کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی لے کر تبوک تک تشریف لے گئے لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی اور اس علاقہ کے لوگوں نے اطاعت قبول کرلی اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے پھر حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں سارا ملک شام فتح ہوا۔ ( مختصر از مو ضح) ف 5 کیونکہ دنیا فانی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی کتنا پانی لے کر پلٹتی ہے، ( مسلم) دوسری حدیث میں ہے اللھم لاعیش الا عیش الا خرۃ۔ کہ یا اللہ زندگی صرف آخرت کی ہی زندگی ہے۔ ( بخاری مسلم )