يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے ایمان والو ! بلاشبہ مشرکین ناپاک ہوتے ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب (21) نہ آئیں، اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر (22) ہے تو اگر اللہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے جلد ہی تمہیں دولت مند بنا دے گا، بے شک اللہ خوب جاننے والا، بڑی حکمتوں والا ہے
ف 1 گندے ہونے یہ سے مراد نہیں ہے کہ ان کے بد ن گندے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ عقائد اعمال اور اخلاق کے اعتبار سے گندے ہیں۔ اکثر علما نے سلف (رح) نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ ف 2 یعنی آئندہ سے حدود حرم میں بھی ان کا داخلہ سر سے بند ہے۔ اس سے صرف ذمی اور غلام مستثنیٰ ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سال کے بعد ذمی اور خدام کے سوا کوئی مشرک حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر 9 ھ کو حج کے موقع پر سورۃ تو بہ کے کی ابتدائی آیات کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا الا لا یحجن بعد العام مشرک ولایطون فن بالبیت عریان، کہ آئندہ کوئی مشرک حج میں شریک نہیں ہو سکے گا اور نہ کوئی ننگاہو کر طواف ہی کرسکے گا۔ اور نہ کوئی ننگا ہو کر طواف ہی کرسکے گا۔۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اس کے بعد آنحضرت نے مشرکین اور یہود ونصاری کو جزیرہ عرب سے نکال دینے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخرت وصیت کے مطابق حضرت عمر (رض) نے ان کو جزیرہ عرب سے خارج کیا۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسجد حرام میں تو مشرک داخل نہیں ہوسکتا۔ مگر دوسری مساجد میں کسی ضرورت کے مطابق مشرک داخل ہوسکتا، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مشرکوں کو اپنی مسجد میں آنے کا اجازت دی تھی اور ثمامہ کو مسجد کو ستون سے باند ھنے کا وقعہ تو مشہور ہی ہے۔ ( از وحیدی) ف 3 برات کے اعلان سے بعض لوگوں کے دلوں میں اندیشہ پیدا ہوا کہ مشرکین جو سامان تجارت اور کاروبار کی بندش وغیرہ کا اندیشہ نہ کرو۔ ف 4 آئندہ کے لے اللہ تعالیٰ اسباب روزق کے دروازے کھول دیگا چنانچہ ایک تو جہاد کی و جہ سے غنیمت اور جزیہ کا بہت سال مسلمانوں کو حاصل ہو تو وہ مالدار ہوگئے اور پھر تمام غریب مسلمان ہوگئے اس لیے حج میں آنے والوں کی کمی بھی نہ ہوئی ( وحید)