لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
اللہ تعالیٰ نے بہت سی جگہوں میں تمہاری مدد کی، غزوہ حنین (20) کے دن مدد کی جب تمہاری کثرت نے تمہارے اندر عجب پیدا کردیا تھا، لیکن وہ تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑے
ف 3 حنین، مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ وہاں فتح مکہ (رمضان 8 ھ) کے ایک ماہ بعد شوال 8 ھ میں مسلمانوں کی ہوازن، ثقیف، بنو جشم، بنو سعد اور بعض دوسرے قبائل سے جنگ ہوئی تھی ) ( ابن کثیر وغیرہ) ف 4 نبی (ﷺ) کے ساتھ دس ہزار مہاجرین (رض) اور انصار (رض) کا لشکر تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ (ﷺ) کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دوہزار آدمی آپ (ﷺ) کے ساتھ اہل مکہ ( طلقا) میں سے شامل ہوگئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا جب کہ مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی اس پر بہت سے مسلمانوں میں غرور کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ حتی ٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ ( ابن کثیر۔ کبیر) ف 5 ہوا یہ کہ ہوازن کے بہت سے لوگ کمین گوہوں میں چھپ گئے۔ جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہو اتو انہوں مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان حواس باختہ ہوگئے اور ان میں سے اکثر بھاگ کھڑ ہوئے صرف 100 سو کے قریب مسلمان نبی (ﷺ) کے ساتھ رہ گئے۔ آپ (ﷺ) کے چچا عباس (رض) آپ کے خچر کی لگام اور آپ (ﷺ) کے چچا زاد بھائی ابو سفیان (رض) بن حارث آپ (ﷺ) کی رکاب تھامے رہے آپ (ﷺ) بلند آواز سے فرما رہے تھے(إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ إِلَيَّ انا رَسُول اللَّهِ)۔ اللہ کے بندو ! میری طرف آؤمیں اللہ کا رسول (ﷺ) ہوں اور کبھی فرماتے (أنا النبي لاكذب … أنا ابنُ عبد المطلَّب) ( میں اللہ کا سچا نبی ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں) تب بھاگنے والے مسلمان پلٹنا شروع ہوئے۔ (ابن کثیر )