أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم نے گمان (14) کرلیا ہے کہ تم اپنے حال پر چھوڑ دئیے جاؤ گے، حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے علاوہ کسی کو اپنا جگری دوست نہیں بنایا، اور اللہ تمہارے تمام کرتوتوں کی خوب خبر رکھتا ہے
ف 8 یعنی انتہائی محبوب اور دوست، اس شرط کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ جہاد میں تو منافق بھی شریک ہوجاتے ہیں مگر یہ جہاد مقبول نہیں ہوتا تا وقتیکہ ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کی خیر خواہی نہ ہو۔ ( ابن کثیر) ف 9 مطلب یہ ہے کہ تمہیں یقینا آزمائش کی بھٹی سے گزار کر رہے گا تاکہ پتہ چل جائے کہ تم میں وقعی کون سچا اور مخلص تھا اور کون جھوٹا اور منا فق، اشارہ ہے اس طرف کہ جہاد کی مشرو عیت کی ایک حکمت مؤمنین کی ثابت قدمی کو جا نچنا بھی ہے، یہ معنی نہیں ہیں کے آزمائش بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا، ( نیز دیکھئے سورہ عنکبوت آیت 1۔3 و آل عمران آیت 179)