كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
مشرکوں کا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیسے کوئی عہد و پیمان (8) ہوسکتا ہے، ہاں، مگر جن کے ساتھ مسجد حرام کے قریب تمہارا معاہدہ ہوا، تھا، اگر وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ اس پر قائم رہو، بے شک اللہ تقوی والوں کو پسند کرتا ہے
ف 4 یا ان کا عہد کیونکر عہد ہوسکتا ہے وہ تو بے ایمان ہیں جب بھی عہد کرتے ہیں اسے توڑ ڈالتے ہیں۔ ( وحیدی) ف 5 یعنی صلح حدیبیہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی۔ یہ صلح نامہ چونکہ حدود حرم کے اندر طر پایا تھا اس لیے اسے عندالمسجد الحرم فرما دیا۔ ( ابن کثیر) ف 6 یعنی ان سے قتال نہ کرو چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاہدہ پر قائم ر ہے۔ اس معاہدہ میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدہ میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خز اعہ کے مابین لڑائی چھڑگئی اور مشرکین نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بن خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، یہ چنانچہ معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان 8 ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیا۔ ( ابن کثیر) شاہ صا حب فرمتے ہیں کہ صلح والے تین قسم فرمائے ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری ان کو جواب دیا کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر فو کے کی صلح میں شامل تھے تو جب تک وہ دغانہ کریں یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی لیکن آخر سب مشرکیہن عرب ایمان لائے۔ ( مو ضح) ف 7 اور عہد کا پورا کرنا بھی پر ہیز گاری کے لیے ضروری شرط ہے۔ ( وحیدی)