وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اور تم لوگ ان کے مانند نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے نکلے، اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے منع کرتے تھے، اور اللہ ان کے کارناموں سے پوری طرح واقف ہے
ف 4 مسلمانوں کو لڑائی میں ثبات اور کثرت ذکر الہٰی کا حکم دینے کے بعد اب کفار کے تشبہ سے منع فرمایا ہے۔ ( ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی جو باجے گاجوں اور گانے والی لو نڈیوں سمیت ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کو بچانے مکہ سے نکلے، جب حجفہ کے مقام پر پہنچے تو انہیں اگرچہ معلوم ہوگیا کہ قافلہ تو مسلمانوں كی زد سے بچ کر نکل آیا ہے مگر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اس وقت تک مکہ واپس نہ جائیں گے جب تک مقام بدر پہنچ کر خوب شرابیں نہ پی لیں اور اونٹ ذبح کر کے گانا بجانا نہ کرلیں اور ہمارے نکلنے کی سارے عرب میں دھوم نہ مچ جائے۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ وہ بدر میں وارد ہوئے تو شراب کے بجائےموت کے پیالے پئے اور گانے والیوں کی بجائے نوحہ گر عورتوں نے حلقہ بدوش ماتم قائم کیا یا للہ العجب ( کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں: جہاد عبادت ہے، عبادت پر اترا وے یا دکھانے کو کرے تو قبول نہیں ( موضح) جملہ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ کا عطف بَطَرٗاپر ہے علی تقدیرا نہ حال بتا ویل اسم الفاعل۔ ( روح )