وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ تم میں بزدلی آجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
ف 2 یعنی صرف اس پر بھروسہ کرو اسی سے مددطلب کرو کیونکہ فتح ونصرت کا انحصار ظاہر اسباب پر نہیں بلکہ دل کی استقامت اللہ کی یاد اور اس کی حکم بر داری پر ہے۔ اسی طالوت کے ساتھیوں نے دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت یہ دعا کی تھی، ربنا افرغ علینا صبرا وثبت قادامنا وانصر نا علی القوم الکافرین اے ہمارے رب ہمیں صبر کی توفی ق دے ہمارے قدم جما دے اور ان کافروں پر ہمیں فتح نصیب کر۔ (بقرہ :250) حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو وقت دعارد نہیں ہوگی ایک اذان کے وقت دوسرے دشمن سے لڑائی کے وقت ( الحاکم بسند) صحیح) یہ اں ثبات سے مقصود انہتایہ بے جگری سے لڑ نا ہے۔ لہذا یہ آیت الا متح فالقتال او متحیزا الی فئتہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تحرف اور تحیز ہی ظبات کے حصول کا ماجب بن جاتا ہے ،( کبیر ) ف 3 ہوجاتی ہے گی یعنی اقبال کے بعد اد بار نظر اوے گا۔ ( مو ضح) نیز ی کہ تمہارے درمیان پھوٹ دیکھ کر دشمنوں پر سے تمہارا رعب اٹھ جائے گا اور وہ تم غالب پانے کے لیے اپنے اند جرات محسوس کرنے لگیں گے، جا لر یح کنا یتد عن الدولتہ و النصر ۃ کما فسر ھا مجاھدہ ( روح) یہ صحابہ (رض) کرام کے اتحاد اور صبر کا نتیجہ تھا کہ تیس سال کے اند ر ہی مسلمانوں کی سب پر غلبہ حاصل ہوگیا اور مملکت اسلامی کے حدود مشرق و مغرب میں حیرت انگیز طریقے سے پھیل گئے۔ ( ابن کثیر )