إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
جب تم لوگ (وادی بدر کے مدینہ سے) قریبی کنارے پر تھے، اور وہ لوگ دور والے کنارے پر، اور تجاری قافلہ (ساحل سمندر کی طرف) تم سے نیچے، اور اگر تم دونوں جماعتوں نے پہلے جنگ کا ایک وقت مقرر کیا ہوتا تو وعدہ خلافی کرجاتے، لیکن ایسا اس لیے ہوا تاکہ اللہ ایک معاملے کا فیصلہ (37) کردے جسے بہر حال ہونا تھا تاکہ جو ہلاک ہو وہ روشن دلیل آجانے کے بعد ہلاک ہو، اور جو زندہ رہے وہ روشن دلیل دیکھ لینے کے بعد زندہ رہے، اور بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے
ف 4 یعنی وادی بدر کے اس سرے پر جو مدینہ منورہ کی سمت ہے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی ساحل بحر کی طرف، یہ منصوب علی الطرفیتہ ہے یا موضع حال میں ہے جیسا کہ جمہور علمان کا خیال ہے جنگ کے اس نقشہ کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اسو قت بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ دشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ ( روح) ف 6 یعنی تم اپنے مقابلے میں ان کی کثرت تعداد سے ڈرتے اور وہ رسول اللہ صلعم کے رعب اور ہیبت سے ( کذافی الوحیدی) ف 7 مراد اہل اسلام کی فتح اور اہل کفر کی شکست ہے۔ ( ازا بن کثیر) ف 8 یا یہ کہ اتمام حجت ہو اور کسی کے لیے عذر کا ماقع نہ رہے یعنی اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھکر کافر رہے ( اور ہلاکت میں پڑے) اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو۔ ( وحیدی )