وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت (35) ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور (رسول کے) رشتہ داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا، اگر تمہارا ایمان (36) اللہ اور اس نصرت و تائید پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا تھا جب حق باطل سے جدا ہوگیا، جب دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ ہوگئی، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
ف 1 وپر کی آیت وقاتلو ھم، الخ۔ میں مقاتلہ کا حکم تھا جس کے نتیجہ میں حصول غنیمت ایک لاذزمی امر تھا اس لیے اس آیت میں مال غنیمت کی تقسیم کے چند مصارف بیان فرما دیئے ( کبیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سورۃ کے آغاز میں جو اس کی تقسیم کا اختیار اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا تھا اسی کی تفصیل ہو ،( کذافی بعض الحواشی) مطلب یہ ہے کہ کل مال غنیمت کے پانچ حصے کئے جائیں گے۔ چار حصے ان لوگوں کو ملیں گے جنہوں جنگ میں شرکت کی اور خمس پانچواں حصہ ان اغراض کے لیے الگ کرلیا جائے گا جن کا آیت میں ذکر کیا گیا ہے اس خمس کی تقسیم میں سلف کے مختلف اقوال ہیں۔ امام مالک (رح) اور اکثر سلف (رح) کا خیال یہ ہے کہ امام (خلیفہ اسلام) کو اختیار ہے کہ مسلمانوں کو اجتماعی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں جس طرح چا ہے تصرف کرے اسی پر خلفا اربعہ (رض) کا عمل رہا ہے۔ ( قر طبی) اور سنن ابو داؤد کی حدیث الخمس ھر دود علیکم ( کہ میرے لیے اس غنیمت میں سے پانچو اں حصہ ہے اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہاری ہی اجتماعی مصلحت میں صرف کردیا جاتا ہے) سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) اور حافظ ابن کثیر (رح) نے اس کو سب سے صحیح قول قرار دیا ہے۔ اس سے آیت سورۃ حشر اور اس آیت کے درمیان منا فات بھی رفع ہوجاتی ہے ورنہ کہا جائے گا کہ مال غنیمت اور مال فے میں فرق ہے اور سورۃ حشر میں اموال فے کا بیان ہے یعنی وہ اموال جو دشمن سے صلحا حاصل ہوں ( نیز دیکھئے سورۃ حشر اور ناتے والوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان کے لوگ مراد ہیں یعنی بنو ہاشم اور ان کے ساتھ بنو المطلب بھی جمہور علمائے سلف کا یہی قول ہے۔ ( ابن کثیر) ف 2 یعنی بدر کے دن جس میں حق اور باطل کا فیصلہ ہوا حق کی فتح ہوئی اور باطل مغلوب ہوا ( ابن کثیر) ف 3 یعنی 17 رمضام 2 ھ بروز جمعہ ( ابن جریر بروایت حضرت علی (رض) یہاں پر جو کچھ ہم نے اپن بندے پر نازل کیا سے مراد وہ آیات ( فرشتے اور نصرت) ہیں جو بدر کے دن ظاہر ہوئیں۔