يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے ایمان والو ! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں ایسے کام کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے زندگی (17) کے مترادف ہو، تو ان کی پکار پر لبیک کہو، اور جان لوگو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل (18) ہوتا ہے، اور تم لوگ بے شک اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے
ف 3 یعنی خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنا تم پر لازم ہے لما یحییکم () وہ کام جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔) میں علمائے سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ بعض نے ایمان واسلام اور بعض نے قرآن لیکن اکثر نے اس سے جہاد مرد لیا ہے کیونکہ جہاد دنیا و آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پھر سیاق کلام کے مناسب بھی یہی ہے لیکن اگر اس سے مراد حق وصواب لیا جائے تو قرآن ایمان جہاد اور برو طاعت کے جملہ امور کریہ لفظ شامل ہوجاتا ہے مو لانا علامہ لکھتے ہیں اس آیت سے تقلید ناجائز کی جڑ کٹ گئی جب اللہ کا حکم یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا مانو تو کیونکہ یہ درست ہوسکتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی موجودگی میں دوسرے مجتہد یا امام کی بات پر عمل کیا جائے، دوسرے ائمہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفش بر دار جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا نہ ماننا اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، ( مختصر از وحیدی) ف 4 یعنی حق وا ضح ہوجا نے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی یہ سزا ملتی ہے کہ ہو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق ملتی جسیے فرمایا فلما زاغوا ارراع اللہ قلو بھم یعنی وہ خود ٹٹرھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ ( صف 5) آیت کے یہ معنی حضرت ابن عباس (رض) ارجمہور مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ( ابن کثیر) ابن قیم (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ٰٗ آدمی کے دل کے قریب ہے اس لیے وہ انسان کے دل کے حالات سے خوب واقف ہے اسے خوب معلوم ہے کہ تم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر اخلاص سے لبیک کہہ رہے ہو یا کسی دوسرے جذنہ سے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں میں اخلاص پیدا کرو، ( الفوائد) شاہ صاحب (رح) اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( از مو ضح) امام رازی فرماتے ہیں اللہ کا حائل ہونا موت سے کہنا یہ ہے کہ یعنی موت آنے سے قبل نیکی اور اطاعت بجالا وؤ۔، اس کے بعد اونہ الیہ تحشرون کے جملہ سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ( رازی )