سورة الانفال - آیت 4

أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہی لوگ حقیقی مومن ہیں، انہیں ان کے رب کے پاس بلند مقامات ملیں گے اور اس کی مغفرت اور باعزت روزی ملے گی

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 یعنی جنت کے میوے اور کھانے ف 5 یہاں غزوہ بد ر کے لیے روانگی کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو 2 ھ میں پیش آیا، مختصر واقعہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان سر کردگی میں شام سے مکہ جارہا ہے اور مدینہ کے راستہ پر پہنچ چکا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو مختصر سی جمعیت جو تین سو سے کچھ اوپر تھی لے کر قافلہ کے تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے ابو سفیان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کی اطلاع ہوگئی، اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعہ مکہ اطلاع بھیج دی اور خود احتیاط اصل رستہ چھوڑ کر ساحلی اختیار کرلیا۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچتی تو ابو جہل ایک بڑا مسلح لشکر لے کر قافلہ کی حفاظت کے لے روانہ ہوگیا اور آکر بدر میں ڈیرے ڈال دیئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی سامنے ساری صو رتحال رکھ دی کہ ایک طرف تجارتی فافلہ ہے اور دوسری طرف قریش کالشکر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دونوں میں سے ایک ضرور ملے گا۔ اس پر بعض صحابہ (رض) کو تردو ہوا۔ وہ جاہتے تھے کہ لشکر کی بجائے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اس وقت حضرت ابو بر (رض)، حضرت عمر (رض) حضرت مقداد (رض) اور حضرت سعد بن معاذ نے اطاعت کی تقریریں کیں، تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف صحابہ (رض) کی کراہت مدینہ سے نکلنے کے وقت نہ تھی جیسا کہ بظاہر آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے لیکن مجموعی واقعہ کی ایک قرار دیکر اس کراہب کو خروج سے متسل کردیا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وھم کارھون حال مقدرہ ہو۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح اس وقت مدینے سے نکلنے سے ہچکچا نا اور خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرانا صحیح ثابت نہ وہوا اور بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مال غنیمت ہاتھ لگا اسی طرح آج بھی انہیں مال غنیمت کی تقسیم میں ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے جو حصہ ملے اسے قبول کرلینا چاہیے اس کا نتیجہ ان کے حق میں بہتر رہے گا ( کبیر، ابن کثیر) شاہ صا حب بھی لکھتے ہیں یعنی غنیمت یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیساکہ نکلتے وقت عقل کی تد بیر کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم پر برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو، ( مو ضح