وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
اور ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا (109) کیا ہے، ان کے دل ایسے ہیں جن سے سمجھتے نہیں، اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ایسے ہیں جن سے سنتے نہیں، وہ بہائم کے مانند ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گم گشتہ راہ ہیں، یہی لوگ درحقیقت بے خبر ہیں
ف 13 ف لجھنم میں لام عاقبت بھی ہوسکتا ہے یعنی اپنے حواس سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے انجام کار جہنم میں جائیں گے گو یا جہنم ہی کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے، اور لام غایت کا بھی ہوسکتا یعنی تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے علم اور قضا قدر ہمیں وہ جہنم ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں گو تشریعی طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور شریعت کا مکلف قرار دیا ہے جیسا کہ بہت ہی احادیث تقدیر میں مذکور ہے اور علما نے تقدیر اور جبری فرق کی وضاحت کی ہے۔ ف 1 کیونکہ انعام ( چوپائے) کی نقل و حرکت تمام تر اس کے طبعی تقاضے اور تسخیری غایت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس کفار اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق کی نافرما کر رہے ہیں، ( ابن کثیر) ف 6 یعنی خواب غفلت میں پڑے ہوئے اور حیات بعد الموت سے بے فکر ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا ننا اور ان کے احکام کو سیکھنا ہر شخص پر فرض ہے اگر کوئی ایسا نہ کرے گا تو دوزخ میں جائے گا۔ ( مو ضح)