وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
اور آپ ان سے اس بستی (98) کا حال پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب اس بستی کے رہنے والے ہفتہ کے دن کے بارے میں اللہ کے حدود سے تجاوز کرتے تھے، جب مچھلیاں ہفتہ کے دن اپنا سر نکالے ان کے پاس آجاتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہیں ہوتا تو مچھلیاں ان کے پاس نہیں آتی تھیں، ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں آزمائشوں میں ڈالیں
ف 3) فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے انہیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے بار رہیں مگر انہوں نے دریا کے کنا رے سے پانی کاٹ کر حوض تعمیر کرلیے جب ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں آجاتیں تو ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کارتکاب کرنے کے لیے حیلہ سازی بھی حرام ہے حدیث میں ہے لا تر تکبو اما ارتکب الیھود فتسحلوا محارم اللہ باونی الحیل کہ یہود کی طرح شریعت میں حیلے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو۔ ( ابن کثیر) بائیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت کے دن ان کو مکمل طور پر کارو بار بند رکھنے کا حکم تھا مگر وہ اس کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے تھے۔ ف 4 یا پانی سے سر نکالے ہوئے آجاتیں، ف 5 یعنی ان کے فسق کی وجہ سے ان پر یہ سختی کی گئی تھی،۔