الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ان کے لئے جو ہمارے رسول نبی امی (90) کی اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث اور گندی چیزوں کو حرام کرتے ہیں، اور ان بارہائے گراں اور بندشوں کو ان سے ہٹاتے ہیں جن میں وہ پہلے سے جکڑے ہوئے تھے، پس جو لوگ ان پر ایمان (91) لائے ہیں، اور جنہوں نے ان کے مقام کو پہچانا ہے، اور ان کی مدد کی ہے، اور اس نور کی پیروی کی ہے جو ان پر نازل ہوا، وہی فلاح پانے والے ہیں
ف 11 یعنی اس زمانہ میں میری رحمت کے خاص طو پر مستحق وہ لوگ ہیں۔۔۔۔۔ ( قر طبی) ف 12 یہاں آنحضرت (ﷺ) کی ’’صفات تسعہ‘‘ مذکور ہیں اور ’’ان پڑھ نبی‘‘ لفظ سے یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود آپ میں جو کمال علم پایا جاتا ہے وہ آپ (ﷺ) کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ چنانچہ’’ علوم نبوت‘‘ جو احادیث کی شکل میں موجود ہیں ان کو پڑھ کر عرب جیسی ان پڑھ قوم دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور مهذب ترین قوموں کی رہنما بن گئی۔ ف 13 آج بھی توراۃ وانجیل میں وہ مقامات موجود ہیں جن میں بنی سرائیل کو نبی (ﷺ) کی آمد کی بشارت دی گئی ہے، مثال کے طور پر دیکھئے استثنأ باب 18 آیت 17۔22) باب 32۔ آیت 21) باب 3 آیت 1۔2 متی۔ باب 4 آیت 23۔12 وغیرہ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے( تفسیر المنار) ف 14 یعنی جو طیب چیزیں ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے حرام کردی گئی تھیں یا انہوں نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، ( جیسے اونٹ گو شت اور چربی وغیرہ) وہ انهیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو انہوں نے حلال قرار دے رکھا تھا۔ ( جیسے سور کا گوشت اور شراب وغیرہ) وہ انہیں حرام قرار دیتا ہے اور پھر جو چیزیں بھی شریعت نے حلال قراردی ہے وہ طیب ہی ہے اور جو حرام قرار دی ہے وہ خبیث ہی ہے۔ ( ابن کثیر ) ف 15 یعنی ان کے علمانے ان پر جو خود ساختہ پاپند یاں لگا کر دین میں تنگی پیدا کر رکھی تھی۔ آنحضرت (ﷺ) ان پاپند یوں کو توڑ کر دین میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ احادیث میں ان سہولتوں کو تفصیل سے ذکر ملتا ہے جو اسلام میں امت محمد ی ( علیہ السلام) کو خاص طور حاصل ہوئی ہیں۔ اور آنحضرت (ﷺ) نے جو امع کلمات سے ان کو بیان بھی فرما دیا ہے جیسے فرمایا (بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ) کہ مجھے آسان حنیفی دین دے کر بھیجا گیا ہے، نیز فرمایا (الدِّينُ يُسْرٌ) کہ دین میں آسانی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے(لاضرَرَ ولا ضِرارَ)کہ اسلام میں مضرت رسانی بالکل ممنوع ہے۔ نیز آپ صحا بہ کرام کو ہمیشہ تلقین فرماتے (يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا) کہ احکام میں سہولت کو سامنے رکھو تنگی پیدا نہ کرو۔ ( ابن کثیر، کبیر ) ف 1 یعنی قرآن پریاقرآن اور سنت دونوں پر ) ( ابن کثیر کبیر )