وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (اے میرے رب !) تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے، اور آخرت میں بھی ہم نے تیری طرف رجوع کرلیا، اللہ نے کہا، میں اپنے عذاب (88) میں جسے چاہتا ہوں مبتلا کرتا ہوں، اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقوی (89) کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں
ف 7 یعنی میرا عذات تو صرف ان کافروں اور نا فر مونوں کے لیے مخصوص ہے جنہیں ان کی نافرمانی پر سزا دینا چاہتا ہے کیونکہ عذاب دینا میری صفات میں سے نہیں ہے بلکہ وہ محض میرا ایک فعل ہے جو صفت عدل کے تقا ضے میں ظاہر ہوتا ہے۔ میری صفت اور نظام کائنات میں اصل چیز رحمت ہے جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے دعا کی الھم ارحمنی ومحداولا تر حم منا احدا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لقد تحجرت وسعا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت واسع کو محددو کردیا ابن کثیر) اگر اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرح اس کی رحمت بھی خاص نیکو کاروں کے لیے ہوتی اور کفر و نافرمانی پور فو را امو اخذ ہوتا تو روئے زمین ہی چلنے والے چھوڑ تا۔ (خاطر :45) ف 8 یعنی جوان صفات سے متصف ہو نگے اور وہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ ( ابن کثیر) ف 9 دوسرے ارکان و فرائض کو چھوڑ کر خاص طو پر زکواۃ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہود یوں میں مال کی محبت پائی جاتی تھی اور اس بنا پر وہ جتنی کوتاہی ادائے وکوٰۃ میں کرتے تھے کوئی اور فریضہ کرنے میں نہ کرتے تھے۔ ف 10 یہ آیت تمام احکام شریعت پر حاوی ہے زکوٰۃ حقوق مالی) الصلوۃ ( حقوق بدنی) اور ایمان میں ہر قسم کی آفت آجاتی ہے، ( رازی) یہا تک حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) دعا کا جواب ختم ہوگیا، اب اگلی آیت سے موقع کی منا سبت یہود ونصاری ٰ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ دنیا و آخرت میں رحمت الہیٰ کے حصول کے لیے مندر جہ بالا صفات کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی بھی ضروی۔ ہے ( کبیر )