سورة الاعراف - آیت 150

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصہ کی حالت میں افسوس کرتے ہوئے واپس ہوئے، تو کہا کہ تم لوگوں نے میرے جانے کے بعد میری بڑی بری نیابت (82) کی ہے، اپنے رب کا حکم (تورات) آنے سے پہلے تم یہ حرکت کر بیٹھے، اور انہوں نے تختیوں کو ایک طرف ڈال دیا، اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے، ان کے بھائی نے کہا، اے میرے بھائی لوگوں نے مجھے کمزور سمجھ لیا تھا، اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیتے، پس دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کو موقع نہ دو اور مجھے ظالموں میں سے نہ بناؤ

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو طور پر خبر دے دی تھی کا سامری نے آپ کے بعد کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ طہ ٰ آیت 85) ف 2 یعنی میں جاتے وقت تم کو کہہ گیا تھا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں میری نصیحتوں پر کار بند رہنا اور کوئی نئی حرکت نہ کر بیٹھنا میں اللہ کی طرف سے احکام لے آؤں گا مگر جب میں مقررہ میعاد ( 30) دن تک واپس نہ آیا تو تم نے سمجھ لیا کہ میں مر کھپ گیاہوں اس پر تم نے دین میں ایک بد عت ایجاد کرلی کہ خدا پر ایمان کے ساتھ بچھڑے کی بھی پوجا کرنے لگے اس طرح میرے بعد تم بہت برے خلیفہ ثاتب ہوئے ہو یاتم نے بہت براکام کیا ہے۔ ( المنار، کبیر) ف 3 حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے ان کی سفقت حاصل کرنے کے لیے یا بن امر) کہا ہے ف 4 یعنی میں نے ان کے بچھڑے کی پوجا سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ہے ( دیکھئے سورۃ طحہٰ آیت 90) مگر یہ لوگ مجھے مانے پر پل پڑے اور خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ مجھے قتل ہی نہ کر ڈالیں ف 5 یعنی یہ نہ سمجھو کہ میں بھی ان کے جرم میں شریک ہوں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شماتت اعدا یعنی اس بات سے ہمیشہ پناہ مانگتے کہ کسی مصیبت پر دشمنوں کو خوشی حاصل ہو۔ ( بخاری )