وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اور ہم نے ان لوگوں کو جنہیں دنیا کمز و ناتواں سمجھتی تھی، اس زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنا دیا جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا، اور بنی اسرائیل سے آپ کے رب کا اچھا وعدہ، فرعونیوں کے ظلم پر ان کے صبر کرنے کی وجہ سے پورا ہوا، اور فرعون اور اس کی قوم کے لوگ جو عمارتیں اور محلات بناتے تھے انہیں ہم نے تباہ کردیا، اور ان باغات کو بھی جنہیں وہ ٹٹیوں پر چڑھایا کرتے تے
ف 9 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کنے اپنی قوم سے دو وعدے کئے تھے، دشمن کی ہلاکت اور ملک کی وراثت اور خلافت چنانچہ پہلا وعدہ پورا ہونے کے بعد اب یہاں دوسرے وعدے کی تکمیل کا بیان ہے، یہامبارک سرزمین سے شام کی سرزمین مراد ہے اور یہ وعدہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات کے بعد حضرت یو شع ( علیہ السلام) کے دور میں پورا ہونا شروع ہوا جب کہ انہوں نے عمالقہ سے جہاکر کے بعض علاقے اپنے قبضے میں لے لیے مگر پورا ملک شام حضرت داوؤد ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد میں قبضہ میں آیا۔ (کبیر) اور بعض مصر شام دونوں مراد لیے ہیں اور لکھا ہے کہ فرعون کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل مدتوں مصر پر حکمران رہے، قرآن کی بعض آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے ( دیکھئے سورۃ دخان و سورۃ قصص آیت 5 )