قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا، اے شعیب ! ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال (51) دیں گے، یا یہ کہ تم لوگ ہمارے دین میں لوٹ آؤ، شعیب نے کہا کیا ہم ایسا کریں، چاہے اسے برا جانتے ہو
ف 1 یعنی دوباتوں میں سے ایک بات ناگرریز ہے یا تمہیں اپنے وطن سے نکلنا پڑے گا یا ہماری ملت یعنی شرک و کفر کو پھر سے اختیار رنا ہوگا ْ اب تم سوچ لو کہ اپنے لیے ان میں سے کونسی سزا پسند کرتے ہو ؟ عود کے معنی کسی چیز کی طرف لوٹ آنے کے ہیں حضرت شعیب ( علیہ السلام) خود تو کبھی شرک وکفر میں مبتلا نہیں رہے پھر ان کے دین میں لوٹ آنے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اور پھر حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے اپنے اس وقل کی تکذیب نہ کرنے سے یہ شکال اور بھی قوی ہوجاتا ہے ہے علما نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں اول یہ کہ ان کے اکثر ساتھی چونکہ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوتے تھے اس لیے انہوں نے تفلیبا شعیب کو بھی ان لوگوں میں شامل سمجھ کر یہ بات کہدی، دوم یہ کہ بعثت سے قبل جب تک حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے دعوت وتبلیغ کا آغاز نہیں کیا تھا۔ اور پنی قوم کے کفر و شرک پر خاموش رہے تھے تو کفار نے گمان کرلیا ہوگا کہ شاید یہ بھی ہمارے دین پر ہیں، اس لیے انہوں نے اولتعودن کہدیا ورنہ حقیقت یہ نہیں تھی، سوم یہ کہ عود بمعنی صیو ورۃ ہو یعنی ابتدا کسی چیز کو اختیار کرنا تو ترجمہ ہوگا یا تم ہمارا دین اختیار کرلو۔ چہار م یہ کہ عوام کو دھو کا دینے کے لیے ان سرداروں نے یہ بات کہہ دی ہو اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے بھی مشا کلتہ اس ابہام کے مطابق جواب دے دیا ہو ( کذافی الکبیر الرازی) وضح رہے کہ آیت میں معک کا تعلق اخراج سے ہے ایمان سے نہیں ہے