وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب (50) کو بھیجا، اس نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہاری کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی دلیل آچکی ہے، پس تم لوگ ناپ اور تول پورا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو، اور زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پیدا کرو، اگر تم لوگ مومن ہو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے
ف 4 مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فسلطین کے جنوب میں بحراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور اآج بھی اس علاقہ میں جگہ اسی نام سے مشہور ہے امام نو دی نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا نسب یوں بیان کیا ہے شعیب بن مکائیل بن یشجر بن مدین ابراہیم ( علیہ السلام) واللہ اعلم ( المنار) حضرت شعیب کو اہل مدین کا بھائی اس لیے کہا گیا ہے کہ شاید وہ بھی سب حضرت ارابراہیم کے بیٹے مدین ہی کی نسل سے ہوں گے۔ ( رازی) حضرت شعیب اہل مدین اور اصحاب ایکہ کی طرفف مبعوث ہوئے ہوسکتا ہے کہ یہ ایک ہی قوم ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو قومیں ہوں۔ ( ابن کثیر۔ ابو الفدار) اور کمال فصاحت کی وجہ سے حضرت شعیب علی السلام خطیب الا نبیا کے لقب سے مشہور ہیں ( ابن کثیر) ف 5 یعنی میری صداقت پر دلائل مو جو ہیں لہذا ضروی ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اس صحیح سمجھو ( ابن کثیر) امام رازی لکھتے ہیں یہاں بینتہ کے معنی معجزہ کے ہیں مگر یہ معجزہ کیا تھا قرآن مجید میں اس کا ذکر نہیں ہے ہے اور قرآن نے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزات بیان نہیں فرمائے علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ مو دی ( علیہ السلام) کے پاس جو عصا لاٹھی) تھا وہ شعیب ( علیہ السلام) ہی نے ان کو عطا کیا تھا یہ دراصل شعیب (رض) کا معجزہ تھا ( ک، ف) مگر اس کرید کی ضرورت نہیں ہے اجمالی طور پر حضرت شعیب کے معجزہ پر ایمان لانا کافی ہے۔ ( 6 اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں تھیں ایک شرک اور دوسرے کاروبار میں بد دیانتی اور حق تلفی شرک سے اللہ تعالیٰ کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور کار وبار میں بدیانتی تمام سماجی اور معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی قوم راہ راست پر نہیں آسکتی یعنی دو قسم کی خرابیاں فساد فی الارض بنتی ہیں گو یا تم زمین میں امن واصلاح کی بجائے فساد پھیلا رہے ہیں یعنی طرح طرح کے اعتر اضات اور اشبہات پیدا کر کے اسے غلط ثابت کرنا چاہتے ہو۔