سورة الاعراف - آیت 54

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک آپ کا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ (38) دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی (39) ہوگیا، وہ رات کے ذریعہ دن کو ڈھان (40) دیتا ہے، رات تیزی کے ساتھ اس کی طلب میں رہتی ہے، اور اس نے سورج اور چاند اور ستاروں کو پیدا کیا (41)، یہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں، آگاہ رہو کہ وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی کا حکم ہر جگہ نافذ ہے، اللہ رب العالمین کی ذات بہت ہی بابرکت ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 8 اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہے۔ (شوکانی) دیکھئے سورت حج آیت 47۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں دنوں سے ہمارے دن مراد نہیں ہیں جن کا تعلق سورج اور زمین کی گردش سے ہے کیونکہ ان سے لمبا زمانہ یا چھ ادوار مراد ہیں قرآن کی مخلتف آیات پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ ہر دور میں کون سی چیز بنائی گئی دیکھئے سورۃ فٖصلت آیت 10۔۔۔ صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم الا حد ( اتوار) سے خلق کی ابتدا ہوتی ہے اور جمعہ کے دن تمام ہوگئی ( ابن کثیر، المار ) ف 9 استویٰ علی العرش قرآن میں ساتھ مقامات پر آّیا ہے اس کے معنی عرش پر بلند ہونے کے ہیں سلف صالح نے بلاتاویل اللہ کو عرش پر تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ استو کے معنی تو معلوم ہیں مگر اس کی کیفیت ہماری عقل سے با لا ہے اس کا اقرار ایمان ہے اور انکار کفر ہے یہی مذہب آئمہ اربعہ کا ہے پس صحیح عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے تاہم اس کا علم وقدرت سب پر حاوی ہے اہل حدیث کا یہی عقیدہ ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمان وزمین پر محیط ہے ( ابن کثیر، شوکانی) ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور راستہ ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ اسی پر چلتے رہتے ہیں اور اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ (کذافی الکبیر ) ف 11 یعنی جس طرح خلق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح حکم اور قانون بنانے کا اختیار بھی اسی کو ہے ،