قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
آپ ان سے پوچھئے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کردیا ؟‘‘[٣١] آپ کہیے کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ایمان [٣٢] لائے اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ ہم اسی طرح اپنی آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ ....: اس آیت میں ’’زِيْنَةَ اللّٰهِ ‘‘ سے عمدہ لباس اور وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن سے انسان کو حسن و جمال حاصل ہوتا ہے اور ’’الطَّيِّبٰتِ ‘‘ سے عمدہ قسم کے لذیذ کھانے مراد ہیں۔ اس آیت میں ان لوگوں کی سخت تردید ہے جو اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ترکِ استعمال کو درویشی سمجھتے ہیں اور گھٹیا قسم کا کھانا کھانے اور لباس پہننے ہی کو بڑی نیکی سمجھتے ہیں اور ان صوفیوں کی بھی تردید ہے جو خود ساختہ وظیفے بتانے کے ساتھ ہی ہر جان دار کا اور جان دار سے حاصل ہونے والی چیز، مثلاً دودھ، گھی اور شہد کا کھانا منع کر دیتے ہیں اور اسے ترک حیوانات جلالی و جمالی کا نام دے رکھا ہے، جو دراصل ہندو سادھوؤں اور جوگیوں کا مذہب ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو۔‘‘ [ ترمذی، الأدب، باب ما جاء أن اللّٰہ یحب....: ۲۸۱۹، و صححہ الألبانی ] شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ یعنی منع کام میں خرچ نہ کرے، باقی کھانا پینا سب روا ہے، جو نعمت ہے مسلمان کے واسطے پیدا ہوئی ہے، دنیا میں کافر بھی شریک ہو گئے، آخرت میں صرف انھی کے لیے ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ احقاف( ۲۰)۔