وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ
اور جن کے پلڑے ہلکے [٧] ہوئے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا۔ کیونکہ وہ ہماری آیتوں سے ناانصافی کیا کرتے تھے
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ....:اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد کافر ہیں، کیونکہ قرآن نے انھیں’’خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ‘‘ قرار دیا ہے، مومن گناہ گار تو آخر کار کسی نہ کسی طرح اﷲ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں پہنچ جائیں گے۔ (کبیر) مزید دیکھیے سورۂ حاقہ(۲۵ تا ۲۹) کی تفسیر۔ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے روز سب کے سامنے لایا جائے گا، اس کے ننانویں اعمال نامے پھیلائے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک اتنا لمبا ہو گا جتنی دور نگاہ جاتی ہے، پھر پروردگار اس سے فرمائے گا : ’’کیا تم ان میں سے کسی عمل سے انکار کرتے ہو؟‘‘ وہ عرض کرے گا : ’’ نہیں۔‘‘ پھر پروردگار فرمائے گا : ’’تمھاری ایک نیکی بھی ہمارے پاس ہے اور آج تم سے کوئی بے انصافی نہیں کی جائے گی۔‘‘ پھر ایک بطاقہ (کاغذ کا ٹکڑا) لایا جائے گا جس پر’’أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ ‘‘ درج ہو گا۔ وہ عرض کرے گا : ’’بھلا یہ ایک پرزہ ان تمام دفتروں کے مقابلے میں کس کام آئے گا؟‘‘ حکم ہو گا کہ تم پر کوئی ظلم نہیں ہو گا (لہٰذا صبر کرو) پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور یہ کاغذ کا ایک پرزہ دوسرے پلڑے میں، تو وہ دفتر ہلکے ہو جائیں گے اور وہ پرزہ بھاری ہو گا اور اﷲ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو گی۔‘‘ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت....: ۲۶۳۹۔ ابن ماجہ : ۴۳۰۰۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۱؍۲۶۱ ] اہل علم نے دوسری آیات و احادیث کو مد نظر رکھ کر اس شخص سے وہ آدمی مراد لیا ہے جسے کلمہ پڑھنے کے بعد عمل کا موقع ہی نہیں ملا، یعنی جسے آخری وقت پر کفر و شرک سے باز آنے اور اسلام لانے کی توفیق ملی اور اسلام لانے سے اس کے تمام گناہ معاف ہو گئے یا بدعمل ، اور آخری وقت توبہ کی توفیق نصیب ہو گئی۔