سورة البقرة - آیت 88

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور یہود یہ کہتے ہیں کہ انکے دل غلافوں میں [١٠٣] محفوظ ہیں (جن میں کوئی نیا عقیدہ داخل نہیں ہو سکتا) (بات یوں نہیں) بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی ہے۔ لہٰذا (ان میں سے) تھوڑے [١٠٤] ہی ایمان لاتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

(1) غُلْفٌ:یہ’’أَغْلَفُ‘‘ کی جمع ہے، جیسے’’اَحْمَرُ ‘‘کی جمع ’’حُمْرٌ ‘‘ہے، یعنی جو چیز غلاف (پردے) میں ہو، جیسے : ’’رَجُلٌ اَغْلَفُ‘‘ ’’وہ آدمی جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔‘‘ اور ’’ سَيْفٌ اَغْلَفُ‘‘ ”وہ تلوار جو غلاف میں ہو۔“ یہود کہا کرتے تھے کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں ، ان پر تمھاری باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا، فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَيْهِ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۵] ’’اور انھوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔‘‘ بعض علمائے تفسیر نے ”غُلْفٌ“ کے یہ معنی کیے ہیں کہ ہمارے دل علم و حکمت سے پُر ہیں ، کسی دوسرے علم کی ان میں گنجائش نہیں ہے۔ اس پر قرآن نے فرمایا کہ حق سے متاثر نہ ہونا فخر کی بات نہیں ہے، یہ تو اللہ کی لعنت کی نشانی ہے۔ (ابن کثیر) فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ: ”مَا“ تاکید کے لیے ہے، اس لیے ’’بہت کم‘‘ ترجمہ کیا گیا۔ ’’بہت کم ایمان لاتے ہیں ‘‘ کا ایک معنی یہ ہے کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایمان لاتے ہیں ، جیسے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ اس صورت میں یہ ”يُؤْمِنُوْنَ“ کی ضمیر سے حال ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں ، پورا ایمان نہیں لاتے، بعض آیات اور بعض انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور بعض سے کفر کرتے ہیں ، اس صورت میں یہ ”اِیْمَانٌ“ محذوف کی صفت ہے۔ ”قَلِيْلاً“ بعض اوقات عدم کے لیے بھی آتا ہے کہ وہ ایمان لاتے ہی نہیں ۔