وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
وہی تو ہے [١٥٠] جس نے دونوں طرح کے باغات پیدا کئے ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ دوسرے وہ درخت جو خود اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں (ان کی بیل نہیں ہوتی جو ٹٹیوں پر چڑھائی جائے) نیز کھجوریں اور کھیتیاں پیدا کیں جن سے کئی طرح کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس نے زیتون اور انار پیدا کئے جن کے پھل اور مزا ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں اور مختلف [١٥١] بھی۔ جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں سے [١٥٢] اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور بے جا خرچ نہ کرو۔ کیونکہ اللہ اسراف [١٥٣] کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ....:’’مَعْرُوْشٰتٍ ‘‘ کا مادہ ’’ عرش ‘‘ (ن، ض) ہے۔ جب اس کا ذکر کسی پودے کی بیل کے ساتھ ہو تو اس کا معنی اس کی ٹہنیوں کو لکڑیوں وغیرہ پر اوپر اٹھانا ہے۔ ’’عَرَشَ الْكَرْمَ‘‘ یعنی اس نے انگور کی بیل کو لکڑی وغیرہ پر چڑھایا۔ 2۔ مُتَشَابِهًا وَّ غَيْرَ مُتَشَابِهٍ: اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے اس سورت کی آیت (۹۹) کا حاشیہ۔ 3۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے زمین سے پیدا ہونے والی ہر کھیتی، پھل، سبزی اور درخت کا ذکر فرما کر حکم دیا ہے کہ کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو، اس لیے زمین سے پیدا ہونے والے ہر پھل اور کھیتی میں سے اﷲ کا حق ادا کرنا ضروری ہے، خواہ وہ ’’مَعْرُوْشٰتٍ ‘‘ ہوں، یعنی جن کی بیلیں چھتوں پر چڑھائی جاتی ہیں، مثلاً انگور، توری وغیرہ، یا ایسے باغات ہوں جن کی بیلیں زمین پر پھیلتی ہیں، مثلاً خربوزہ، تربوز، گرما وغیرہ، یا ایسے پھل دار درخت ہوں جو اپنے تنے پر قائم ہوں، مثلاً کھجور، زیتون اور انار وغیرہ، یا کوئی بھی کھیتی ہو، زمین سے پیدا ہونے والے ہر پھل اور کھیتی میں سے اﷲ تعالیٰ کا حق نکالنا فرض ہے اور مال میں اﷲ کا سب سے بڑا حق زکوٰۃ و عشر ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بارش، چشموں اور نہروں سے سیراب ہونے والی ہر فصل میں عشر، یعنی دس من میں سے ایک من اور پانی کھینچ کر سیراب کی جانے والی ہر فصل میں نصف العشر، یعنی بیس من میں سے ایک من ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کسی فصل کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ مفصل احکام کتب احادیث میں ملاحظہ فرمائیں۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ سبزیوں میں اور ان پھلوں میں عشر نہیں ہے جن کا ذخیرہ نہ ہو سکتا ہو، مثلاً مالٹا، انار وغیرہ، دلیل کے طور پر ترمذی کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سبزیوں میں صدقہ نہیں ہے، مگر خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور نہ اس مطلب کی کوئی اور حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس آیت میں ہر کھیتی، زیتون اور انار کا ذکر ہے، حالانکہ انار کا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ دورِ رسالت کے عمل کو دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ایسی چیزوں کے عشر لینے کا اہتمام کرے جن کا ذخیرہ کر سکے، باقی باغوں اور کھیتوں والے اﷲ کا حق خود مستحقین میں تقسیم کر دیں۔ فتاویٰ علمائے حدیث کی ساتویں جلد میں متعدد جلیل القدر علماء کے مقالات میں ہر پھل اور کھیتی میں سے عشر کی بات نہایت مفصل اور مدلل بیان کی گئی ہے۔ 4۔ ’’ وَ لَا تُسْرِفُوْا ‘‘ سے مراد ناجائز جگہ خرچ کرنا بھی ہے اور اعتدال سے بڑھ کر خرچ کرنا بھی، اسی طرح کھانے میں زیادتی بھی منع ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا﴾ [ الأعراف : ۳۱ ] ’’اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے مطابق یہ آخری معنی یہاں زیادہ موزوں ہے، اس لیے بھی کہ یہ جسم اور عقل دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اتنا صدقہ کرنا بھی اسراف ہے کہ اس کے بعد آدمی خود محتاج ہو کر مانگنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ حکم حکمرانوں کے لیے بھی ہے کہ جتنا کسی کے ذمے بنتا ہے اس سے زیادہ وصول نہ کریں۔