سورة الانعام - آیت 138

وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

کہتے ہیں کہ اس اس قسم کے مویشی اور کھیتی ممنوع ہیں۔ انہیں ان کے گمان کے مطابق وہی کھا سکتا ہے جسے وہ چاہیں۔ اور کچھ مویشی ہیں جن کی پشتیں حرام ہیں (ان پر نہ کوئی سوار ہوسکتا ہے نہ بوجھ لاد سکتا ہے) اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن پر وہ (ذبح کے وقت) اللہ کا نام نہیں لیتے۔[١٤٨] یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے۔ اور اللہ عنقریب انہیں ان کی افتراء پردازیوں کا بدلہ دے دے گا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ’’حِجْرٌ ‘‘ بمعنی ’’مَحْجُوْرٌ ‘‘ ہے، یعنی ممنوع۔ اس میں ان کی جاہلیت کی تین اور صورتیں بیان فرمائی ہیں، پہلی صورت یہ کہ فلاں جانور یا کھیت کا استعمال ممنوع ہے، مگر اس کے لیے جسے ہم اجازت دیں گے اور یہ اجازت بت خانوں کے مجاوروں اور خادموں کے لیے ہوتی تھی۔ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا: یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور ان سے سواری یا بوجھ اٹھوانے کا کام نہ لیتے، جیسے بحیرہ، سائبہ وغیرہ۔ دیکھیے سورۂ مائدہ(۱۰۳)۔ وَ اَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا....:یہ تیسری صورت ہے کہ وہ کچھ جانوروں کو بت خانوں کے مجاوروں کے لیے خاص کرتے ہوئے انھیں ذبح کرتے وقت یا سوار ہوتے وقت صرف اپنے بت کا نام لیتے، اﷲ کا نام نہ لیتے، بلکہ ان پر حج کے لیے بھی نہ جاتے، تاکہ ان مجاوروں کے سوا کوئی انھیں استعمال نہ کر سکے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں مگر وہ اﷲ پر جھوٹ باندھتے اور باور کرواتے کہ یہ اﷲ کا حکم ہے۔