سورة الانعام - آیت 90

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تھی۔ آپ انہی کے راستہ پر [٩١] چلئے اور کہہ دیجئے کہ : میں اس (تبلیغ و رسالت کے کام) پر تم سے اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو تمام جہان والوں کے لیے ایک نصیحت [٩٢] ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ: یعنی توحید اور عقائد میں ان کی راہ پر قائم رہیے، کیونکہ تمام انبیاء ان باتوں میں متفق ہیں، باقی احکام میں سے بھی جو منسوخ نہیں ہوئے ان کی بھی پیروی کیجیے۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان انبیاء کی طرح آپ بھی دشمنوں کی ایذا رسانی پر صبر کیجیے۔ اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جن کاموں میں کوئی نیا حکم نہیں آیا ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے انبیاء کے طریق پر رہنے کا حکم تھا۔ مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا : ’’کیا سورۂ ص میں سجدہ ہے؟‘‘ تو انھوں نے ﴿وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ﴾ سے لے کر ﴿فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ﴾ تک تلاوت کر کے فرمایا : ’’ہاں، وہ (داؤد علیہ السلام ) بھی ان لوگوں میں سے تھے جن کی پیروی کا آپ کو اس آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اس آیت میں داؤد علیہ السلام کے سجدے کا ذکر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان انبیاء کی پیروی کا حکم ہے۔‘‘ [بخاری، التفسیر، باب قولہ: ﴿أولئك الذين هدي اللّٰه....﴾: ۴۶۳۲ ] اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِيْنَ: اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس دونوں کی طرف بھیجے گئے اور آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے۔